लाइब्रेरी में जोड़ें

16-Dec-2021 حضرت سلیمان علیہ السلام

حضرت سلیمان علیہ السلام
قسط_نمبر_13
چوتھا_حصہ 
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ میں تیری ساری مخلوق کی دعوت کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مخلوق بے حساب ہے۔ تم کھِلا نہ پاؤ گے، لیکن حضرت سلیمان کے اصرار پر اجازت دے دی گئی۔ جگہ کے انتخاب صفائی اور انتظام و انصرام میں آٹھ ماہ لگے۔ قصص الانبیاء کے مطابق ساٹھ لاکھ دیگیں، ہر ایک ستر گز لمبی چوڑی جبکہ جامع التواریخ میں دو ہزار سات سو دیگیں جن کا طول و عرض ہزار گز تھا۔ لگن تالابوں کی طرح کے بنائے گئے۔ ہزار ہا گائیں ذبح کی گئیں۔ شاندار کھانا تیار ہوا۔ تمام مخلوق مدعو تھی کہ ایک مچھلی نے دریا سے سر نکال کر کھانے کی فرمائش کی۔ اسے انتظار کرنے کے لیے کہا گیا۔ لیکن اس نے کہا میں بہت بھوکی ہوں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے سوچا کہ کیا فرق پڑتا ہے کھا لے۔ مچھلی نے اجازت ملتے ہی سارا کھانا ایک لقمہ میں ختم کیا اور کہا کہ مجھے بھوک لگی ہے۔ میں روزانہ تین لقمے کھاتی ہوں۔ یہ تو ایک لقمہ ہے۔ میں تو تمھاری دعوت میں بھوکی ہی رہی۔ جب تم کھلا نہ سکتے تھے تو لوگوں کو کیوں اتنی تکلیف دی۔ یہ سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام لرز گئے۔ روزی دینے والا تو اللہ ہی ہے۔ استغفارکرنے لگے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام تمام مخلوقِ خدا کی دعوت کی خواہش رکھتے تھے، لیکن اپنا یہ حال تھا کہ خود گھر کا سارا کھانا ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے۔ ذریعہ ء معاش زنبیل ( بڑا تھیلا)سینا تھا، اس کو بیچ کر اپنا خرچ پورا کیا کرتے۔ جَو خرید کر لاتے، خود چکی پر پیستے۔ روٹی پکاتے اور کھاتے۔ ان کی عادت تھی کہ ہر شام بیت المقدس میں غریب و مسکین روزہ داروں کے ساتھ روزہ افطار کرتے۔ وہ اس بات پر ہمیشہ شکر گزار رہتے کہ یا اللہ تیرا کتنا کرم ہے کہ میں درویشوں کے ساتھ درویش اور بادشاہوں کے ساتھ بادشاہ ہوں اور پیغمبروں میں بھی شامل ہوں۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ بھوک نے بہت ستایا ہوا تھا، بے تاب ہو کر ایک دروازے پر دستک دے کر کہا کہ میں مسافر ہوں، مہمان ہوں اور بھوکا ہوں۔ خاتون نے انکار کیا کہ میں آپ کو گھر میں نہیں بلا سکتی، جب میرے شوہر روزگار سے واپس آئیں گے تب آپ کو کھانا کھلا دیا جائے گا، میں البتہ یہ کر سکتی ہوں کہ میرے باغ میں آپ یہ وقت گزار لیں۔ آپ باغ میں جا کر انتظار کرنے لگے، اسی کیفیت میں نیند نے آ لیا۔ باغ میں ایک ناگ کا بسیرا تھا، وہ آیا اور آپ کی حفاظت کے لیے، آپ کے گرد چکر لگانے لگا۔ شوہر باغ کے قریب سے گزراتو یہ نظارہ دیکھ کر حیران رہ گیا، گھر آ کر بیوی سے ماجرا دریافت کیا۔ عورت نے ساری بات کہہ سنائی، شوہر اجنبی مہمان کو لینے باغ پہنچا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ خوف ناک اور انتہائی زہریلا ناگ اب بھی ان کے قریب اس طرح موجود ہے جیسے کسی قیمتی خزانے کی حفاظت کر رہا ہو۔ جب آپ جاگے تو ناگ نہایت خاموشی سے اپنے بل کی طرف چلا گیا۔ آدمی جان گیا کہ اجنبی کوئی معمولی انسان نہیں ہے۔ وہ آپ کو گھر لے گیا، بہت عزت سے تین دن مہمان داری کی۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بے مثل و بے نظیر حکومت عطا کی اور نبوت سے سرفراز کیا۔ بادشاہت و نبوت نعمت بھی ہے اور ذمہ داری بھی جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کی مدد و اعانت سے بخوبی نبا ہی۔ ایک مرتبہ آپ کا دربار لگا تھا۔ سبھی جن و بشر وحوش و طیور حاضر تھے کہ آپ کو کسی کی کمی کا احساس ہوا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
ترجمہ: ’’یہ کیا بات ہے کہ میں ہُد ہُد کو نہیں دیکھتا۔ کیا واقعی وہ غیر حاضر ہے۔ یقیناً میں اسے ایسی سخت سزا دوں گا یا اسے ذبح کر ڈالوں گا۔ یا میرے سامنے کوئی صریح دلیل بیان کرے‘‘             ۳۶؎
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جانوروں، پرندوں، جنوں اور انسانوں کا ایک مہیب لشکر، اس میں ایک چھوٹے سے پرندے ہُد ہُد کے نہ ہونے سے بھی آپ آگاہ ہیں، پھر یہ کہ شاہانہ انداز میں یہ کہنا کہ اگر وہ واقعی موجود نہیں ہے تو میں اسے سزا دوں گا۔ پھر ان سزاؤں کا ذکر جو وہ اُسے دے سکتے تھے۔ یہ بیان اس لیے بھی کہ دوسروں کے لیے باعث عبرت ہو اور پھر شاہانہ انداز کے ساتھ ساتھ ایک نبی کا مطمع نظر بھی کہ اگر اپنی غیر حاضری کا کوئی جواز پیش کرتا ہے، تو وہ قابلِ معافی ہے۔
ابھی اس کی غیر حاضری کا ذکر ہو ہی رہا تھا کہ ہُد ہُد پہنچ گیا۔ اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے کہا کہ میں ایک ایسی خبر لایا ہوں جو آپ کے لیے بالکل نئی ہو گی اور وہ خبر ملک سبا سے متعلق ہے۔
سبا ایک شخص کے نام پر قوم تھی اور یہ ایک مقام کا نام بھی تھا۔ یہاں سبا سے مراد ملک ہی ہے جو جزیرہ عرب کے جنوب میں ہے۔ پھر قحطانی نسل کی ایک مشہور شاخ سبا ہے۔ بعض روایتوں میں عبدالشمس نام کا شخص اپنے قبیلے کا جدِ امجد تھا جو سبا لقب امتیاز کرتا تھا۔ یہ شخص بہت بہادر تھا اور زبردست جنگی فتوحات کے نتیجے میں اس نے سبا حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس کا زمانۂ عروج ۱۱۰۰ء؁ ق۔ م ہے اور اس کا ذکر زبور میں بھی موجود ہے۔ سبا کی حکومت کا اصل مرکز عرب کے جنوبی حصے یمن کے مشرقی علاقہ میں تھا اور دارالحکومت کا نام مارب تھا۔ آہستہ آہستہ اس کا دائرہ وسیع ہو کر مغرب میں حضر موت تک وسیع ہو گیا۔ دوسری جانب افریقہ تک اس کا دائرہ اثر پھیل گیا۔ سلطنت سبا نے یمن اور اطراف یمن میں مضبوط قلعے بنا لیے۔ سبا کی مختلف شاخیں تھیں جو بعد ازاں یمن کو مرکز بنا کر ایک عظیم الشان سلطنت کی صورت میں سامنے آئیں۔ سبا کے حکمران ملوکِ سبا کے لقب سے مشہور ہیں اور ملوک سبا کا آخری دور ۵۵ ق۔ م ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی نسل کے لیے دعا کی کہ سبا کا سونا اسے دیا جائے۔ یہ دعا قبول ہوئی۔ ملکہ سبا نے ۹۵۰ قبل مسیح، حاضرِ دربار ہو کر سونا چاندی نذر کیا، بلکہ مسلمان ہو کر اپنی حکومت بھی سلیمان علیہ السلام کے سپرد کر دی۔
ہُد ہُد نے سچی خبر کی اطلاع یوں دی کہ ملک سبا کی حکمران ایک عورت ہے۔ جس کا نام بلقیس بنت شرجیل ہے۔ ہُد ہُد کے لیے یہ امر باعثِ حیرت تھا کہ عورت ایک عظیم الشان سلطنت کی حکمران ہے۔ ہُد ہُد بڑے ڈرامائی انداز میں روداد بیان کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سب کا دھیان اس قصے کی طرف چلا جائے اور اس کی غیر حاضری کا سوال پسِ پشت جا پڑے اور اس کی گفتگو کا انداز ایسا تھا کہ بادشاہ بھی دیگر اہلِ دربار کے ساتھ ساتھ اس کی بات سننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہُد ہُد بتاتا ہے کہ وہ ایک نہایت ذہین خوبصورت عورت ہے۔ اس کا باپ شرجیل بن مالک یمن کا بادشاہ تھا۔ ابن جریج کے مطابق باپ کا نام ذی شرح اور ماں کا نام بلتعہ تھا۔ حضرت قتادہ ؓکہتے ہیں کہ اس کی ماں جنیہ عورت تھی۔ اس کے قدم کا پچھلا حصہ چوپائے کے کھر جیسا تھا۔ اس کی ماں کا نام فارعہ تھا۔ ملکہ بلقیس سبا اعلیٰ درجے کی ذہین مدبر اور دور اندیش حکمران خاتون ہے جو مصلحت پسند بھی ہے اور حالات کو سنبھالنے کا شعور بھی رکھتی ہے
قرآن حکیم میں ملکہ سبا کا نام موجود نہیں ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ وہ سلطنت سبا یمن، حبشہ یا شمالی عرب کے کس حصے سے آئی۔ بلقیس، اسرائیلی داستانوں میں رقم ہے۔ وہ ایک عظیم الشان محل میں رہتی ہے۔ اس کا تخت بھی بڑی عظمت والا ہے۔ سونے سے منڈھا ہوا۔ مروارید و جواہرات سے سجا ہوا طول ۸۰ ہاتھ عرض ۴۰ ہاتھ اور اونچائی ۳۰ ہاتھ۔ سرخ و سبز یاقوت و زمرد جڑے ہوئے ہیں، جو اس کی عظمت، عیش و ثروت اور صنعت و فن کی ترقی کا عمدہ نمونہ ہے۔
ہُد ہُد نے تخت کے بیان میں کسی قدر مبالغہ سے کام لیا ہے کیونکہ ملکہ بلقیس سبا کے محل کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ وہاں اتنے بڑے تخت کی گنجائش نہ تھی۔ اس کے مشیر وزیروں کی تعداد ۳۱۲ ہے، جن کے تابع بارہ ہزار سردار قوم ہیں اور ہر ہر سردار کے تابع ایک ایک لاکھ سوار، پیادہ ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ملکہ اور اس کی قوم بے دین ہے اور آفتاب پرست ہے، چنانچہ میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا۔ شیطان نے انھیں بھلائی کی راہ سے روک رکھا ہے۔ یعنی وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کو جائز ہے۔ اس لیے وہ راہِ ہدایت پر نہیں آتے کہ اس اللہ کو سجدہ کریں جو زمین و آسمان کی پوشیدہ چیزوں کو باہر نکالتا ہے۔ آسمان سے بارش برساتا ہے اور زمین سے چھپے ہوئے خزانے نباتات و معدنیات کی صورت میں ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ چھپایا جاتا ہے یا ظاہر کیا جاتا ہے۔ وہ سبھی سے آگاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہی عظمت والے عرش کا مالک ہے۔
حضرت سلیمان اپنی رعایا کے بظاہر ایک معمولی فرد، ہُد ہُد کے منہ سے اللہ کی وحدانیت کے بارے میں سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔ ہُد ہُد نے توحید کے متعلق وعظ کیا اور شرک کو رد کیا۔ اللہ کی عظمت بیان کی۔ حضرت سلیمان جان گئے کہ یہ ہُد ہُد دیگر صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ادراک و فہم اور ایمان و یقین کی قوت بھی رکھتا ہے۔
ہُد ہُد خیر کی طرف بلانے والا۔ غیر اللہ کو سجدے سے روکنے والا، اس لیے اس کے قتل کی ممانعت کی گئی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہُد ہد اور صرو یعنی لٹورا کو مارنے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت سلیما ن ہُد ہُد کا ملکہ بلقیس سبا اور اس کی قوم کے متعلق بیان سن کر کہنے لگے کہ اب مجھے یہ معلوم کرنا ہو گا کہ تو سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ بول رہا ہے۔ میرے اس خط کو لے جا کر ملکہ بلقیس کو دے دے اور پھر ان کے پاس سے ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ ہُد ہُد اس خط کو اپنی چونچ میں دبا کر اڑا اور ملکہ بلقیس سبا کے محل میں پہنچ گیا۔ ملکہ اس وقت خلوت خانہ میں تھی۔ ہُد ہُد نے نہایت خاموشی اور احتیاط کے ساتھ خط اس کے سامنے اس طرح ڈالا کہ وہ جان نہ پائی کہ خط کہاں سے آیا ہے۔ کون لایا ہے۔ اپنی گود میں پڑے خط کو دیکھ کر وہ متعجب بھی ہوئی اور خوفزدہ بھی لیکن اتنا اندازہ اسے ضرور ہو گیا کہ یہ کوئی عام خط نہیں ہے۔ خط معزز و مکرم ہے کیونکہ اس پر مہر بھی لگی ہوئی ہے۔ اس خط میں، خط لکھنے کے تمام اصول برتے گئے تھے۔ خط لکھنے کے لیے پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ خط کا آغاز ہی اس طرح ہو کہ خط لکھنے والے کا نام پتہ مکتوب الیہ کے علم میں آ جائے کہ اسے کسی نے خط لکھا ہے۔ پھر اہم بات یہ کہ خط کا آغاز اللہ تعالیٰ کے پاک اور بابرکت نام سے کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام سے پہلے کسی نے خط میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی۔
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں آپﷺ کے ہمراہ جا رہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں جو مجھ سے پہلے سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے بعد کسی نبی پر نہیں اتری۔ میں نے استفسار کیا وہ کون سی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا:
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘
خط مختصر لیکن بلیغ انداز میں تحریر کیا گیا تھا۔ خط سے شاہانہ انداز ہی نہیں پیغمبرانہ شان بھی ظاہر ہوتی تھی۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ابتدا اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ سرکشی چھوڑ کر ایک اللہ کی عبادت کرو۔ یہ کسی بادشاہ کا ہی نہیں بلکہ پیغمبر کا دعوت نامہ ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کرو۔ ملکہ عقل مند تھی۔ معاملات کو کس طرح طے کیا جائے، بخوبی جانتی تھی۔ وہ با اختیار بھی تھی اس کا فیصلہ اس کے اہل دربار کے لیے رد کرنا ممکن نہ تھا۔ پھر بھی اس نے مصلحتاً اپنا فیصلہ سنانے کے بجائے اہلِ دربار سے مشورہ ضروری جانا۔ چنانچہ اپنے تمام سرداروں کو دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا اور کہا کہ اے سردارو! میری طرف ایک بہت ہی اہم اور وقعت والا خط ڈالا گیا ہے۔ جس میں مسلمان ہونے اور تابع فرمان بننے کی دعوت دی گئی ہے۔ تم سب جانتے ہو کہ میں کوئی فیصلہ تمہارے بغیر نہیں کرتی۔ تم رائے دو کہ ہمیں کیآ کرنا چاہیے۔ تمام اہل دربار نے جواب دیا۔
’’ ہمارے پاس طاقت و قوت کی کمی نہیں اسلحہ اور سامان حرب بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ ہم بہادر و شجاع بھی ہیں۔ میدان جنگ میں نہایت جرأت، پامردی کے ساتھ لڑتے ہیں۔ اس لیے ہمیں خوف زدہ ہونے یا جھکنے کی ضرورت نہیں، ہماری طاقت مسلم ہے۔ ہم ہر قسم کے مقابلے کے لیے تیار ہیں۔ اب جو آپ کا حکم ہو۔ ہم آپ کے فرماں بردار ہیں۔ ‘‘
ملکہ بلقیس سبا خط سے اندازہ کر چکی تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے اس کے لشکر کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر جنگ کی نوبت آئی تو تباہی و بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ اس نے اپنے سرداروں سے کہا
’’ جب بیرونی حملہ آور کسی بستی پر حملہ کرتے ہیں تو اسے اجاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ وہاں کے با عزت لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں۔ اپنا رعب و دبدبہ اور شان و شوکت قائم کرنے کے لیے ہر تدبیر کی جاتی ہے۔ قتل و غارت گری کی انتہا کر دی جاتی ہے۔ کھیتیاں جلا دی جاتی ہیں۔ گ

   3
1 Comments

Faraz Faizi

22-Dec-2021 11:07 AM

ماشاء اللہ ♥♥♥♥♥

Reply